the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ روتوراج گائیکواڑ چنئی سپر کنگز کے لیے اچھے کپتان ثابت ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے
 بہار اسمبلی کے انتخابات میں’ عظیم اتحاد ‘کی تین چوتھائی اکثریت سے کامیابی میں اس کی تینوں شریک کار پارٹیاں جے ڈی یو، آر جے ڈی اور کانگریس نے جس غیر معمولی حکمت عملی اور دانشمندی کا ثبوت دیا تھا،انتخابات کے نتائج پر  بالآخر وہ  ظاہر ہو کر رہا ۔ بہار کی سیاسی بیداری نے  وہ  کارنامہ کر دکھایا جو  سیکولر پارٹیوں کیلئے قومی سطح کی سیاست کا عنوان بن گیا ۔ اس عظیم اتحاد کی سب سے بڑی خوبی لالو پرساد یادو کا وہ مثبت رویہ جس میں انہوں کھلے دل کے ساتھ  نہ صرف نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ کے عہدہ کا امیدوار کی حیثیت سے قبول کیا تھا بلکہ ما بعد  انتخابات، عہدوں  کی متوازن تقسیم  کے مسئلہ کو بھی بخوبی حل کر لیا ۔ کہاوت مشہور ہے کہ ’’ جہاں چاہ ہے وہاں راہ ہے‘‘۔  بہار انتخابات میں عظیم اتحاد کی  اس غیر معمولی کامیابی سے ہی یہ اندازہ لگا یا جا رہا تھا کہ مغربی بنگال میں بھی سیکولر پارٹیوں کا  ایسا ہی کوئی اتحاد سامنے آ کر رہے گا۔   2011  کے اسمبلی انتخابات میں سی پی ایم قیادت والا بائیں محاذکے خلاف  انڈین نیشنل کانگریس  نے جب ترنمول کانگریس کے ساتھ انتہائی غیر متناسب سیٹوں کے بٹوارے پر قناعت کر کے اتحاد کیا تھا تو اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ ترنمول کانگرس کا اپنے بل پر اکثریت حاصل کر لینے کے نتیجہ میں کانگریس کا وجود نہ صرف ختم ہو جائیگابلکہ ریاست میں اس کی اہمیت اس درجہ بے تعلق ہو کر رہ جائیگا کہ اس کی وقعت اور وقارہی ختم ہو نے کا اندیشہ ہو جائیگا۔کیونکہ 34 سالوں تک بایا ں محاذ کی حکومت کے دوران کانگریس  پارٹی جو ریاست کی اکلوتی اپوزیشن پارٹی تھی اپنے داخلی انتشار کی شکار تھی۔ رقص جمہوریت کا یہ منظر نامہ بھی کتنا عیارنہ ہے کہ جو لوگ بایاں محاذ کے دور میں کانگریس سے وفادرای نبھانے میں اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے رہے،  آج وہی حکمراں جماعت میں شامل ہو کر اقتدار کا مزہ لے رہے ہیں۔ یہی حال بایاں محاذ کے کئی لیڈروں کا  بھی ہے جو کمیونسٹ دور اقتدار میں بھی فائدہ لیا اور اب ترنمول کانگرس سے وفاداری جتا کر حکومت کا مزہ لوٹ رہے ہیں۔ کمیونسٹوں کے دور اقتدار میں یہی کانگریسی لیڈران ایک طرف بایاں محاذ سے خفیہ مفاہمت کر کے اپنے ذاتی مفاد کو تقویت پہنچاتے رہے اور دوسری طرف قیادت کی حرص اور لالچ کی میں باہم لڑتے رہے۔  ناموں کی ضرورت نہیں، بنگال کے عوام ان چہروں کو بخوبی جانتے اور پہچانتے ہیں جنہوں نے چولا بد کر پارٹی کی وفاداریاں تبدیل کرنے میں ایسی مہارت حاصل  کی ہیں کہ گرگٹ اپنی فطرت پر پشیمان ہے۔  طرہ یہ کہ چولا بدلنے اور اقتدار کا مزہ لینے والے یہی وہ بہرو پئے ہیں جو افکار و نظریات، اصولوں اور ضابطوں کی آج دہائیاں دے رہے ہیں۔
 ریاستی کانگریس کی  نزاعی کیفیت سے کسی لیڈر نے  اگر پارٹی کو باہر نکا لنے کی کوشش کی ہے تو وہ شمال مشرق کا کانگریسی لیڈر ہے جس نے  بد ترین سیاسی حالات میں بھی ریاست میں نمایاں کامیابی درج کرائی ہے۔ کانگریسی لیڈر ا دھیر رنجن چودھری اپنی کم عمری  کے باوجود کانگریس کے بیشتر قد آوار لیڈروں کے مقابلے میں منفرد  اس لئے نظر آتے ہیں کہ انہوں نے کانگریس کی تنظیمی ڈھانچوں کو استوار کرنے کیلئے خارجی دباؤ اور حکومتی مراعات سے مصالحت کی راہ نہیں اپنایا۔حالانکہ موصوف  اپنی جارحانہ رویوں کی وجہ سے  اپنے مخالفین ، جس میں بایاں محاذ بھی شامل ہے ، کی جانب سے قتل جیسے مقدمات سے نبرد آزما  رہے ہیں۔ موصوف کا استقلال اور پارٹی سے وفاداری کے جذبے نے مجوزہ  اسمبلی انتخابات میں بایاں محاذ کے ساتھ ’’عوامی اتحاد ‘‘ کے موقف پر مرکزی قیادت کو بھی بالآخرقائل کر ہی لیا کہ فرقہ پرست پارٹی بی جے پی اور حکمراں جماعت سے لوہا لینے کیلئے  ’’ عوامی اتحاد‘‘ کے سوا کوئی  چارہ نہیں۔ادھیر رنجن چودھیری نے گویا ایک تیر سے کئی نشانہ لگایا ہے۔ پہلا یہ کہ بایاں محاذ سے مفاہمت اور تال میل پیدا کر کے ووٹوں کی تقسیم کے جواز کو ختم کیا۔   دوسرا پارٹی کے داخلی انتشار کو عارضی طور پر ہی سہی لگام لگایا ہے۔ جس کا نتیجہ بھی خاطر خواہ نظر آ رہا ہے کہ ریاست کے تمام کانگریسی رہنما اب ایک آوازاور ایک راہنما خط پر مشترکہ اہداف کیلئے کام کرتے نظر آ رہے ہیں۔ یعنی کانگریس کی تنظیمی ماحول میں جس اتحاد کی ضرورت تھی وہ بایاں محاذ سے مفاہمت کر کے حاصل ہوتا نظر آ رہا ہے ۔ البتہ ایک دو  کانگریسی لیڈران ایسے بھی ہیں جنہیں پارٹی کے وسیع تر مفاد سے زیادہ ان کی اپنی انا محبوب ہے جو ’’ عوامی اتحاد‘‘ کی مخالفت یہ کہہ کر کر رہے ہیں کہ کانگریسی قیادت نے اقلیتوں کی نمائندگی کا خیال نہیں رکھا۔ حالانکہ  بلا تفریق ہر پارٹیوں کا ’’ اقلیتی شعبہ ‘‘  درحقیقت اقلیتوں کی حق تلفی کا چور دروازہ  نظر آتاہے۔ پارٹیوں کے’’ اقلیتی شعبوں ‘‘کے نمائندوں کا انتخاب کا آخرکون سا جمہوری   طریقہ کار ہے ، جس کی بنیاد پر پارٹی کے کسی ایک چہرہ کو ’’ اقلیتوں ‘‘ کا نمائندہ  باوار کرا دیا جاتا ہے؟ ااقلیتوں کی خدمات کی سند ، نہ سماجی کار کردگی کا وصف، بس اخبارات میں بیان بازی اور تصویریں کھنچوا کر اقلیتوں کی نمائندگی کے د عویداروںسے اقلیتوں کا



آج تک کیا بھلا ہوا ہے؟ واضح رہے کہ  پارٹی کی اکثریت رائے کا احترام سے قطع نظرکرنے والی آوازوں کی اس وقت کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی پارٹی کے وسیع تر مفاد میں ایسے عناصر کی مخالفتوں کو دانشمندانہ عمل ہی کہا جا سکتا ہے۔ ایسی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں جن کے اپنے ذاتی مفادات وابستہ ہوتے ہیں ۔پارٹیوں کے ایسے موقع پرست حکمراں جماعت کی چوکھٹ پر سجدہ ریزی کا  بہانہ ڈھونڈتے ہیں۔
 ادھر دوسری جانب سی پی ایم کی بنیادی پالیسیوں میں کسی واضح تبدیلی کا دشوار کن معاملاتھا۔ پولیٹ بیور کی تصدیقی مہر کے بغیر سی پی ایم علاقائی طور پر فیصلہ لینے کا مجاز نہیں۔ ا یسے ضابطوں کو تنظیم کی طاقت بھی کہا جا سکتا اور کمزوری بھی۔ البتہ پولیٹ بیور کی پالیسی میں لیکن بنگال لائن کی حیثیت ہمیشہ سوتیلے بھائی کی رہی ہے۔  بنگال کے چونتیس سالا سی پی ایم  اقتدار سے پولیٹ بیورو نے اگرچہ اپنی تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط تر بنانے میں کوئی کسر نہیںچھوڑا، لیکن  بنگال لائن  کے تئیں پولیٹ بیور کے رویوں نے پارٹی اور ملک کے حق کے خلاف ہمالیائی غلطیوں کا ارتکاب بھی کیا ہے۔ جس میں جیوتی باسو کے وزیر اعظم بننے کا سنہرا موقعہ اور، سومناتھ چڑجی کو پارٹی سے خارج کرنا اس کی فاش غلطیوں میں شامل ہے۔  پولیٹ بیور کے اس رویوںکے مد نظر  سی پی ایم کے  شوریہ کانت مشرا  جو زمینی سطح کے حقائق سے پوری طرح واقفیت رکھتے ہیں، کو ’’ عوامی اتحاد ‘‘ کیلئے  پہلے اپنے گھر ’’ بنگال لائن‘‘ کو ٹھیک کرنا پڑا ۔   سی پی ایم کی قومی قیادت کو ریاستی مفاد اور عوامی اتحاد کے آگے بالآخر گھٹنے ٹیکنے ہی پڑے۔  یہ ضرور ہے کہ بہ ظاہر سی پی ایم  اپنی نظریات کے ساتھ مفاہمت اور سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نظر نہیں آ رہی تھی، لیکن خوف ولالچ کی بنا  پر ریاست بھر پارٹی کے کارکنوں  کے پارٹی  سے خروج کے مد نظر  ،سی پی ایم قیادت کیلئے یہ ضروری تھا کہ پہلے اپنے کیڈروں کا اعتماد بحال کرے۔موصوف مشر ا نے زمینی حقائق کا تجزیہ نیز سلی گوڑی کے بلدیاتی انتخاب میں  اشوک بھٹا چاریہ کے تجرباتی فارمولا سے نکل کر آنے والے مثبت نتائج سے پارٹی میں  واضح طور پر یہ پیغام پہنچا دیا کہ 2016 کے اسمبلی انتخاب میں  تما متر اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر کانگریس پارٹی کے ساتھ ایک مشترکہ رہنما خط پر مفاہمت کرنا وقت کا تقاضا  سمجھتی ہے۔’  کانگریس اور  سی پی ایم  کیلئے  یہ’ ’ ابھی نہیں تو کبھی نہیں  ‘‘ جیسا ایک ایسا موقعہ ہے جس میں فرقہ پرست بی جے پی اور  تر نمول کانگریس  کے مبینہ بدعنوانی کے خلاف اپنی حمایت میں عوام کا اعتماد بحال کرا سکتے ہیں ۔
 سی پی ایم اور کانگریس کے درمیان عوامی اتحاد کا خاطر خواہ نتیجہ ظاہر بھی ہونے لگا ہے۔ کیونکہ اس اتحاد نے سابقہ تمام  سیاسی روایتوں کو توڑ کر انتخابی پر چار کی ضمن میں مشترکہ دیوار لکھنے کی روایت، روڈ شو اور میٹنگوں میں قدآور لیڈروں کی شمولیت نیز تقریروں سے عوامی مقبولیت  میں بد ستور اضافہ ہوتا نظر آ رہاہے۔ کانگریس اور سی پی ایم  کے متعلقہ عالیٰ قیادتوں کا  ایک دوسرے کے پلیٹ فارم سے عوامی خطاب کا مدابرانہ تجربہ بھی بنگال کے عوام کے اعتمادوں کو بحال کرنے میں معان نظر آ رہا ہے۔ شارد ا کے بعد ناردا گھوٹالے سے حکمراں جماعت  ابھی ابھر بھی نہیں پائی تھی کہ شہر نشاط کلکتہ کے تجارتی علاقہ میں فلائی اور کے منہدم ہو نے کا المناک حادثہ  رو نما ہوگیا۔اس حادثہ نے اہل کلکتہ ہی نہیں پورے بنگال  کے دلوں کو دہلا کے رکھ دیا ہے۔ قدرتی آفات میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات سے تو لوگ ابھر کر آ بھی جاتے ہیں، لیکن حکمراں جماعت کا ایک ایسا رویہ ماں ماٹی مانش کی دہائی دیتے نہیں تھکتی تھی،  اس نے ماںکی نہ ماٹی اور نہ ہی مانش  کا لحاظ  رکھا اور نہ ہی قدر کی  ۔ اپوزیشن کا  الزام ہے کہ وویکا نند فلائی اور کاحادثہ حکومت اور انتظامیہ کی  سراسر مجرمانہ لا پرواہی اور بد عنوانی کی وجہ سے ہوا ہے۔ ترنمول کانگریس کے ایک ایم پی نے خود اعتراف کیا ہے کہ فلائی اور کے پلان میں خامیوں کی انہوں نے د نشاندہی کی تھی۔ موصوف ممبر پارلیمان کا یہ اعتراف حقیقت  انسانی جانوں کی قیمت اور ان سے محبت کی ترجمانی کرتا ہے کہ فلائی اور کے پلان میں سنگین ترین تکنیکی خامیوں  کے  باوجود   صرف اس لئے اس کی  تعمیربدستور جار کھی گئی  کہ  چالیس فیصد تعمیراتی کاموں کی تکمیل ہو چکی تھی یا اخراجات ہو چکے تھے۔ گویا انسانی جانوں کی قیمت خامیوں سے پر فلائی اور کے چالیس فیصد اخراجات سے بھی کم ہے۔ حکمراں جماعت کے اس رویہ پر حزب مخالف خصوصا سی پی ایم اور کانگریس کے عوامی اتحاد کا شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو پارٹی عوام  کے ٹیکس کی آمدنیوں کو کلبوں اور اماموں کے وضائف میں بانٹتی پھرتی ہے وہ انسانی جانوں کے تئیں کس  قدر بے حس  ہو سکتی ہے اسکا مظاہرہ  شاردا کے اسٹنگ ویڈیوں میں انکشاف ہوا ہے۔ انتخابی مرحلوں کا دور جس قدر قریب تر ہو تے جائیں گے ، عوامی اتحاد کی تشہیر  بھی مزید شدت اختیار کرتی جائے گی جو حکمراں جماعت کیلئے خطرے کی گھنٹی کہی جا سکتی ہے۔
(تنویر احمد، کلکتہ)

اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
خصوصی میں زیادہ دیکھے گئے
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.